Main Kon Hon Mujhy Bhi Nhi Pta Bus Allah Ka Aik Haqeer Sa Banda hon Aur Khud Ko Jannay Ki Koshash Mein Laga Hoa Hon .....
I don't even know who i am but i'm just a humble servant of allah
پاکستان میں کورونا وائرس
Get link
Facebook
X
Pinterest
Email
Other Apps
-
کیا پاکستان میں کورونا وائرس جون میں ختم ہو جائے گا؟
بدھ 29 اپریل 2020 11:1
سنگاپور یونیورسٹی کی سٹڈی کے مطابق پاکستان میں جون میں کورونا تقریباً ختم ہو جائے گا (فوٹو: اے ایف پی)
کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے مشکلات کا شکار پاکستانی شہری دن گن رہے ہیں کہ کب اس وبا سے جان چھوٹے گی اور زندگی بحال ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر امید افزا خبر اور ریسرچ سٹڈی کو سوشل میڈیا پر بہت پذیرائی ملتی ہے۔
امید افزا خبروں میں سے ایک سنگاپور یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اینڈ ڈیزائن کی ڈیٹا لیب کی پیش گوئی ہے جس کے مطابق 'پاکستان میں جون میں کورونا وائرس 99 فیصد تک ختم ہو جائے گا۔'
یونیورسٹی کی ڈیٹا لیب نے دنیا کے مختلف ممالک سے کورونا کے مریضوں کے اعداد و شمار، لاک ڈاؤن اور حکومتی اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد ان میں کورونا کے خاتمے کی تاریخ جاننے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لیے ایک ویب سائٹ لانچ کی ہے۔
سنگاپور یونیورسٹی کی امید افزا تحقیق کے مقابلے میں پاکستان کی قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کے دو پروفیسرز کی بھی ایک تحقیق سامنے آئی ہے جو زیادہ امید افزا نہیں ہے۔ ایسے میں لوگ کس تحقیق پر کس بنیاد پر یقین کریں اس حوالے سے اردو نیوز نے چوٹی کے ماہرین سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔
کورونا ٹیسٹ کی اہمیت
لاہور کی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق 'سنگاپور یونیورسٹی کی تحقیق امید افزا ہے مگر اس کی بنیاد دستیاب اعداد و شمار پر ہے۔'
'پاکستان نے اپنی آبادی کے ایک فیصد افراد کے بھی کورونا ٹیسٹ نہیں کیے جو کہ تقریباً بائیس لاکھ بنتے ہیں، ایسے میں کورونا کے حوالے سے کوئی بھی پروجیکشن یا مستقبل کی پیش بینی درست شمار نہیں کی جا سکتی۔'
ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ 'جب تک پاکستان میں ٹیسٹنگ کی تعداد نہیں بڑھائی جاتی کسی طرح کی تحقیق پر بھروسہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔'
حقیقت کہیں درمیان میں ہے
امریکہ کی ییل یونیورسٹی میں متعدی امراض میں ماسٹرز کرنے والے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کے سابق سربراہ ڈاکٹر سعید اختر کے مطابق 'قائداعظم یونیورسٹی اور سنگاپور یونیورسٹی دونوں کی تحقیق میں ایس آئی آر ماڈل کا استعمال کیا گیا ہے۔'
طبی ماہرین کہتے ہیں کہ ملک میں ٹیسٹنگ کی تعداد بڑھائی جانی چاہیے (فوٹو: اے ایف پی)
'میری ذاتی رائے میں صورت حال نہ اتنی خراب ہے جتنی قائداعظم یونیورسٹی کے پیپر میں دکھائی گئی ہے اور نہ ہی اتنی اچھی جتنی سنگاپور یونیورسٹی کی رپورٹ میں سامنے لائی گئی ہے۔'
'حقیقت درمیان میں کہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تحقیق کا یہ ماڈل ماضی میں کچھ کامیابیوں اور کچھ ناکامیوں کے ساتھ استعمال کیا گیا مگر کورونا وائرس کے کیس میں اتنے ساری عوامل تبدیل ہوتے رہتے ہیں کہ اس ماڈل کی بنیاد پر درست پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'تحقیق کے دوران چیلنج یہ ہے کہ زمینی حقائق لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہیں، لاک ڈاؤن پر کتنا عمل ہو رہا ہے، لوگ کتنی احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں اور اعداد و شمار کتنے درست سامنے آ رہے ہیں، ان سب سوالوں کے جواب مستقبل کی درست پیش گوئی کے لیے بہت اہم ہیں۔'
ڈاکٹر سعید اختر کا خیال ہے کہ 'پاکستان میں مرض کی شدت بہت کم رپورٹ ہوئی ہے اور کورونا کے مریضوں کی جو تعداد بتائی گئی ہے اصل تعداد اس سے یقینی طور پر زیادہ ہے۔ اس کی وجہ ٹیسٹنگ نہ ہونا اور دیہی اور دور دراز کے علاقوں میں مانیٹرنگ کا موثر نظام نہ ہونا ہے۔'
'وفات پانے والے کئی افراد کا کورونا ٹیسٹ کیا جانا چاہیے تاکہ مرض کے پھیلنے کا درست اندازہ لگایا جا سکے، تاہم حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت ملک میں زندہ افراد کے لیے بھی کافی ٹیسٹ نہیں ہو پا رہے۔'
ڈاکٹر سعید اختر کا کہنا ہے کہ 'حکومت کو فیصلہ سازی کرتے وقت گومگو سے نکل کر موثر لاک ڈاؤن کی طرف جانا ہوگا تب ہی مرض پر قابو پانے کا کوئی راستہ نکلے گا۔'
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت پالیسی بناتے وقت ڈاکٹرز کی رائے کو اہمیت
جرمنی کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'جرمن چانسلر اینجیلا مرکل ایک سائنس دان ہیں، انہوں نے کورونا کی آمد کے فوراً بعد ٹیسٹنگ، لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات اس تیزی سے کیے کہ مریضوں کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود ہلاکتیں کم ہوئیں۔'
'ٹیسٹ زیادہ کرنے کی وجہ سے جرمنی مریضوں کی جلد شناخت میں کامیاب ہوا اور پھر ان مریضوں کو بزرگوں اور دیگر کمزور افراد سے دور رکھ کر شرح اموات کو کم کیا گیا۔'
ڈاکٹر سعید اختر کے مطابق 'وفاقی حکومت کی پالیسی ماہرین صحت کو بنانی چاہیے اور ڈاکٹرز کی بات کو سنا جانا چاہیے۔'
History of Ertugrul Ghazi Ertugrul Ghazi is the founder of the Ottoman Caliphate. He was born in 1188 AD and died in 1280 AD. Some books mention 1281. He had three sons Gohar, Shehryar and Usman He later established the Khilafah.The caliphate was named after the same son of Uthman of Ertugrul, the Ottoman Caliphate, but the foundation of the caliphate was laid by Ertugrul Ghazi.The same caliphate then defended the Muslim Ummah with the swords of these Turks for 600 years, from 1291 AD to 1924 AD.Ertugrul Ghazi’s family came here from Central Asia and his ancestor Amjad Oz Khan Oghuz khan had twelve sons from whom they became twelve tribes, one of which was the Kayi tribe to which Ertugrul Ghazi belonged.Your father’s name was Suleiman Shah, Artagul Ghazi had three more brothers, Sarem, Zaljan, Guldaro, your mother’s name was Haima.Your tribe first came from Central Asia to Iran and then from Iran to Anatolia. To escape the Mongol invasion where Sultan Ala-ud-din who was the Sultan of t...
Comments
Post a Comment